حکومت ججز کے تقرر میں سیاسی مداخلت کا دروازہ کھول رہی ہے لیاقت بلوچ

لاہور (نمائندہ جسارت ) جماعت اسلامی پاکستان کے سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ نے کہاہے کہ حکومت ججوں کے تقرر کے حوالے سے ابہام پیدا کر رہی ہے ، ججوں کے تقرر کے سلسلے میں کوئی ایسا اقدام نہیں اٹھانا چاہیے جس سے عدلیہ کی آزاد حیثیت متاثر ہو ‘ وکلا نے عدلیہ کی آزادی کے لیے ماضی میں تاریخی کردار ادا کیا ہے وہ اپنی صفوں میں اتحاد برقرار رکھیں‘جماعت اسلامی ان کے ساتھ ہر طرح کا تعاون برقرار رکھے گی ۔ انہوں نے یہ بات سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے 3 رکنی وفد سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہی۔ قبل ازیں سپریم کورٹ بار کی3 رکنی وفد نے صدر سپریم کورٹ بار قاضی محمد انور کی قیادت میں جماعت اسلامی کے مرکزی رہنماو ¿ں نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان چوہدری محمد اسلم سلیمی ایڈووکیٹ، سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ،ڈپٹی سیکرٹری جنرل ملک محمد اشرف، میاں مقصود احمد اور ظفرجمال بلوچ سے ملاقات کی اور ججوں کے تقرر کے حوالے سے آئینی کمیٹی کی سفارشات پر اپنے تحفظات سے آگاہ کیا۔ اس موقع پر سیکرٹری سپریم کورٹ بار راجا ذوالقرنین اور خالد محمود شیخ ممبرایگزیکٹو کمیٹی بھی موجود تھے۔لیاقت بلوچ نے کہا کہ ہم وکلا کے وفد کا خیر مقدم کرتے ہیں، اس وقت آئینی اصلاحات اور ججوں کے تقرر کے حوالے سے جو ایشو چل رہاہے ،ہم نے وکلا کے وفد کو ہرطرح کے تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔ وکلا کی استقامت کی وجہ سے وکلا تحریک کامیاب ہوئی اور عدلیہ کی آزادی ممکن ہوئی ۔ انہوںنے کہا کہ فروری 2008ءکے انتخابات کے بعد حکمرانوں نے بجٹ کی منظوری کے وقت ججوں کی تعداد29کرنے کا فیصلہ کرلیاتھا اور قوم کو طویل انتظار میں رکھا اور ابہام پیدا کیاگیا۔انہوںنے کہا کہ جوڈیشل کمیشن میں چیف جسٹس کے ساتھ وزیرقانون اور اٹارنی جنرل کو شامل کرنے کا مطلب یہ ہوگا کہ حکومت ججوں کے تقرر میں سیاسی مداخلت کررہی ہے۔ہم سپریم کورٹ بار کے مو ¿قف کی مکمل تائید کرتے ہیں اور ان کے ساتھ ہیں۔انہوںنے کہا کہ جماعت اسلامی کے سینیٹر پروفیسر خورشیداحمد نے بھی کمیٹی کی سفارشات پر اختلافی نوٹ لکھا ہے۔ اس موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے صدر سپریم کورٹ بار قاضی محمد انور نے کہا کہ عدلیہ کی بحالی کے بعد حکمرانوں کو آزاد عدلیہ نہ تو پسندہے اور نہ ہی وہ اسے برداشت کرنے کے لیے تیار ہیں۔عدلیہ نے آزاد فیصلے کرنے شروع کیے اور 31جولائی2009ءکو پی سی او ججز کو نکال دیا، اس کے بعد این آر او پر فیصلہ دیا کہ 120دن کے اندر اسے پارلیمنٹ میں پیش کیاجائے ورنہ یہ کالعدم قرارپائے گا۔ اس پر حکمرانوں کی پیشانی پر بل پڑ گئی، اس فیصلے پر عملدرآمد میں رکاوٹیں پیدا کی جارہی ہیں۔ انہوںنے کہا کہ سب سے اہم مسئلہ آئین میں ترامیم کا درپیش ہے۔ آئین کے آرٹیکل173اور 193میں ترمیم کی کوشش کی جارہی ہے جسے کسی صورت قبول نہیں کیا جاسکتا۔انہوںنے کہا کہ جوڈیشل کمیشن کے اوپر پارلیمانی کمیٹی مقرر کرنے پر ہمیں سخت اعتراض ہی، ہم پارلیمانی کمیٹی کو تسلیم نہیں کرتی، ججوں کے تقرر کو سیاسی نہیں بنانا چاہیے۔ انہوںنے جماعت اسلامی کے رہنماو ¿ں کا شکریہ ادا کیا کہ ماضی میں بھی جماعت اسلامی نے وکلا کی تحریک میں نمایاں کردار ادا کیا ہے اور آج کی ملاقات میں بھی میں منصورہ سے مطمئن کر جا رہے ہیں ۔

0 comments:

Post a Comment