اسٹریٹجک مذاکرات کا ایجنڈا غیر ملکی افواج کا انخلاءہونا چاہیے منورحسن

لاہور(نمائندہ جسارت)امیر جماعت اسلامی پاکستان سید منور حسن نے کہاہے کہ 24 مارچ کو واشنگٹن میں ہونے والے پاک امریکاا سٹریٹجک مذاکرات میں پاکستانی وفد کی اولین ترجیح ملک و قوم کا مفاد ہونا چاہیے ، پاکستان اب تک جو غلطیاں کرتاآرہاہے اس کا اعادہ نہیں ہونا چاہیے ، پاکستانی وفد کا پہلا مطالبہ ہی یہ ہونا چاہیے کہ امریکا اور ناٹو افواج اس خطے سے فوری نکل جائیں ، ہم دہشت گردی پر خود قابو پالیں گے ، امریکی اور غیر ملکی افواج کی موجودگی کی وجہ سے اس خطے میں بدامنی اور انتشار ہے ، امریکا کو یہ بات بھی واضح طور پر کہہ دی جائے کہ ہم فوجی آپریشنز فوری طور پر ختم کررہے ہیں ، پاکستان اس جنگ میں بیش بہا قربانیاں دے چکاہے ، اس جنگ کی وجہ سے پاکستان معاشی بدحالی کا شکار ہے اور بدامنی کی آگ میں جل رہاہے ۔ہفتے کو منصورہ سے جاری کیے گئے اپنے ایک بیان میں امیر جماعت اسلامی نے کہاکہ پاکستان اور افغانستان کے لیے امریکا کے خصوصی ایلچی ہالبروک کے واشنگٹن میں دیے جانے والے بیان سے جو آج کے قومی اخبارات میں شائع ہواہے ، مذاکرات کے ایجنڈے کے بہت سے نکات کھل کر سامنے آ گئے ہیں ۔ ان کا یہ کہنا کہ ” القاعدہ کا مقابلہ کرنا بھی اسٹریٹجک مذاکرات کا حصہ ہو گا ، ایجنڈا وسیع اور پیچیدہ ہی، فوج کی شمولیت کے بغیر اسٹریٹجک مذاکرات ہو ہی نہیں سکتے ۔“اس سے صاف واضح ہورہاہے کہ امریکا پاکستانی فوج کو طالبان کے ساتھ القاعدہ کو کچلنے کا کوئی نیا ٹاسک دینے جارہاہے اس لیے پاکستانی فوج کے سربراہ کو مذاکرات میں شریک کیا جارہاہے ورنہ 2 ملکوں کی سول حکومتوں کے درمیان مذاکرات میں فوجی سربراہ کی شرکت کیا معنی رکھتی ہے ۔ انہوں نے کہاکہ ہالبروک کا یہ کہنا کہ ” امریکا پاکستان میں مستحکم جمہوریت دیکھنا چاہتاہے “ کھلا تضاد ہے ۔ امریکا نے ہمیشہ یہاں جمہوریت کی بیخ کنی کرنے والے فوجی آمروں کی حمایت کی ہے اور ان کے ذریعے اپنے مفادات حاصل کیے ہیں ۔ سید منور حسن نے کہاکہ ان مذاکرات میں پاکستان کی اساس اور اسلام پر کوئی سمجھوتا نہیں ہونا چاہیے ۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان اس وقت جن مشکل حالات سے دوچار ہے اس سے نکلنے کا واحد راستہ امریکی مفادات کی جنگ سے علیحدگی ہے ۔ سید منور حسن نے کہاکہ پاکستانی وزیر خارجہ نے گزشتہ روز اپنی پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا کہ امریکا سے مذاکرات کا یہ دور سابق ادوار سے مختلف ہو گا اور امریکا سے معیشت ، توانائی ، تعلیم ، دفاع ، سائنس و ٹیکنالوجی ، زراعت ، صحت وغیرہ میں دو طرفہ تعاون کی نشاندہی کی ہے ، یہ ان کی خوش فہمی ہو سکتی ہے ۔ وزیر خارجہ کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اس خطے میں صرف بھارت ہی امریکا کا اسٹریٹجک پارٹنر ہے وہ بھارت کے ساتھ دفاع ، نیوکلیئر پاور سمیت تمام شعبوں میں تعاون کر سکتاہے پاکستان کے ساتھ نہیں ۔ وہ پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لیے جو دفاعی ہتھیار بھی فراہم کرتاہے اس کے ساتھ یہ شرط بھی ہوتی ہے کہ یہ بھارت کے خلاف استعمال نہیں ہوں گے ۔انہوں نے کہاکہ قربانیاں پاکستان دے رہاہے اور بھارت افغانستان میں فوائد سمیٹ رہاہے اور وہاں امریکا کی گود میں بیٹھ کر پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی سازشیں کر رہاہے اور دہشت گردوں میں پیسہ تقسیم کر رہاہے ۔ مذاکرات میں پاکستانی وفد کو اس پر اپنے تحفظات کا اظہار کرنا چاہیے ۔